انبیاء نے عقیدہ توحید کے لیے کیا قربانیاں دیں؟

قرآن حکیم کے مطابق انبیاء علیہم السلام نے عقیدۂ توحید کے قیام اور تحفظ کے لیے سخت ترین قربانیاں دیں۔ انہوں نے نہ صرف اپنا سکون، رشتہ داریاں، معاشی حیثیت بلکہ بعض نے جان تک اللہ کی راہ میں قربان کی۔ انبیاء کی زندگیوں کا خلاصہ ایک مسلسل جدوجہد، استقامت اور ایثار پر مبنی ہے تاکہ انسان صرف اللہ کی بندگی کرے اور ہر طرح کے شرک، طاغوت اور باطل نظام سے آزاد ہو۔

وَإِذْ أَخَذَ ٱللَّهُ مِيثَـٰقَ ٱلنَّبِيِّـۧنَ لَمَآ ءَاتَيْتُكُم مِّن كِتَـٰبٍۢ وَحِكْمَةٍۢ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُولٌۭ مُّصَدِّقٌۭ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهِۦ وَلَتَنصُرُنَّهُ ۚ قَالَ ءَأَقْرَرْتُمْ وَأَخَذْتُمْ عَلَىٰ ذَٰلِكُمْ إِصْرِى ۖ قَالُوٓا۟ أَقْرَرْنَا ۚ قَالَ فَٱشْهَدُوا۟ وَأَنَا۠ مَعَكُم مِّنَ ٱلشَّـٰهِدِينَ

اور جب اللہ نے نبیوں سے پختہ عہد لیا کہ میں نے تمہیں کتاب اور حکمت دی، پھر تمہارے پاس ایک رسول آئے جو اس کی تصدیق کرے جو تمہارے ساتھ ہے، تو تم ضرور اس پر ایمان لاؤ گے اور ضرور اس کی مدد کرو گے۔ فرمایا کیا تم نے اقرار کر لیا اور اس پر میرا بھاری ذمہ لے لیا؟ انہوں نے کہا ہم نے اقرار کر لیا۔ فرمایا پس تم گواہ رہو اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہوں میں سے ہوں۔
(آل عمران 81)

یہ آیت بتاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء سے وعدہ لیا تھا کہ وہ ہر حال میں اللہ کی توحید کے لیے کھڑے ہوں گے، چاہے اس کے لیے انہیں کسی قربانی سے گزرنا پڑے۔ اس عہد کے تحت انبیاء نے اپنی دعوت کے دوران کٹھن ترین حالات کا سامنا کیا، لیکن وہ پیچھے نہیں ہٹے۔

نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال مسلسل تبلیغ کرتے رہے، لیکن ان کی قوم نے انہیں جھٹلایا، مذاق اڑایا اور تکالیف پہنچائیں۔ ابراہیم علیہ السلام کو آگ میں پھینکا گیا صرف اس لیے کہ انہوں نے بتوں کی پوجا کو رد کیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے فرعون جیسے جابر حکمران کے سامنے کلمۂ حق بلند کیا، عیسیٰ علیہ السلام کو سولی دینے کی سازش کی گئی، اور خاتم النبیین ﷺ کو مکہ سے ہجرت کرنا پڑی، طائف میں پتھر کھانے پڑے، شعبِ ابی طالب میں محصور ہونا پڑا، لیکن انبیاء نے کبھی توحید کی دعوت سے پیچھے قدم نہ ہٹایا۔

قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ عقیدۂ توحید محض زبانی دعویٰ نہیں بلکہ یہ ایک عملی جدوجہد کا نام ہے، جس کے لیے انبیاء نے مال، رشتے، عزت، گھر، حتیٰ کہ جان تک قربان کی۔ یہ قربانیاں اس بات کا پیغام ہیں کہ اللہ کی بندگی، اور صرف اسی کے حکم کو ماننا ہی اصل دین ہے، اور اسی کے لیے ہر قسم کی قربانی دینا ہی ایمان کی سچائی کا معیار ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا مشرکین کے باطل معبودوں کو برا کہنے سے منع کیا گیا ہے؟کیا مشرکین کے باطل معبودوں کو برا کہنے سے منع کیا گیا ہے؟

جی ہاں، قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کے باطل معبودوں کو برا بھلا کہنے سے منع فرمایا ہے تاکہ وہ جہالت میں آ کر اللہ کو برا نہ کہیں۔