اللہ تعالیٰ ہی وہ واحد ذات ہے جو ہر حال میں بندوں کی فریاد سنتا ہے، ان کی مشکلات دور کرتا ہے، اور ان کے دلوں کی باتوں کو جانتا ہے۔ “مغیث” اور “مشکل کشا” اللہ تعالیٰ کی خاص صفات میں سے ہیں۔ کسی انسان، نبی یا ولی کو ان ناموں سے پکارنا یا سمجھنا شرک فی الصفات کے زمرے میں آتا ہے۔فرمایا
أَمَّن يُجِيبُ ٱلْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ ٱلسُّوٓءَ
“بھلا وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے، اور وہ تکلیف کو دور کرتا ہے؟”
(سورۃ النمل: 62)
اللہ تعالیٰ اس آیت میں صاف اعلان فرما رہا ہے کہ صرف وہی دعا سنتا ہے اور مصیبت دور کرتا ہے، کوئی نبی، ولی، فرشتہ یا جن نہیں۔
نبی ﷺ نے فرمایا:
“إذا سألت فاسأل الله، وإذا استعنت فاستعن بالله”
“جب مانگو تو اللہ سے مانگو، اور جب مدد چاہو تو اللہ سے چاہو۔”
(جامع ترمذی، حدیث: 2516 – صحیح)
اس حدیث میں نبی ﷺ نے عقیدہ توحید کی بنیاد سکھائی: مدد، فریاد، اور کشائش صرف اللہ سے طلب کرو۔
صحابہ کرامؓ کبھی بھی نبی ﷺ کو “مشکل کشا” یا “مغیث” کہہ کر نہ پکارتے تھے، نہ وفات سے پہلے اور نہ بعد میں۔ عمرؓ نے بارش کی دعا کے لیے عباسؓ سے توسل کیا، مگر نبی ﷺ کی قبر مبارک سے کبھی بھی فریاد نہیں کی۔
(صحیح بخاری، حدیث: 1010)
کسی زندہ انسان سے ظاہری اسباب کے تحت مدد لینا جائز ہے، جیسے ڈاکٹر، دوست، یا محافظ سے۔
لیکن کسی کو عالم الغیب، ہر جگہ حاضر، ہر فریاد سننے والا، ہر مشکل دور کرنے والا مان لینا اللہ کے صفاتی اختیارات میں شریک بنانا ہے، اور یہ شرک فی الصفات ہے۔
“مغیث” اور “مشکل کشا” صرف اللہ کی صفات ہیں، اور ان کا اطلاق کسی نبی یا ولی پر کرنا توحید کے منافی ہے۔ نبی ﷺ خود اللہ کے محتاج بندے ہیں، جنہوں نے ہر مرحلے پر اپنی حاجت اللہ سے طلب کی۔
ہمیں بھی چاہیے کہ اپنی فریاد، مدد اور کشائش صرف اللہ وحدہٗ لا شریک سے مانگیں۔
فَادْعُوا۟ ٱللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ ۚ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَـٰفِرُونَ
“پس اللہ ہی کو پکارو، دین کو اسی کے لیے خالص کرتے ہوئے، اگرچہ کافروں کا ناگوار ہی ہو۔”
(سورۃ غافر: 14)