قرآن مجید میں اللہ کے سوا دوسروں کو پکارنے والے کی مثال کو نہایت پرزور اور عقل کو جھنجھوڑ دینے والے انداز میں بیان فرمایا ہے، تاکہ باطل پر بھروسہ کرنے کی حماقت کو بےنقاب کیا جا سکے۔ اگر ایک ہی مثال لے لی جائے تو وضاحت ہو جاتی ہے جسے الرعد کی آیت 14 میں اللہ تعالیٰ نے اپنے سوا دوسروں کو پکارنے والوں کی مثال انتہائی بصیرت افروز انداز میں بیان فرمائی ہے۔ یہ آیت عقیدۂ توحید کی وضاحت کرتی ہے اور شرک کی بےوقوفی اور بے اثری کو واضح کرتی ہے۔
لَهُۥ دَعْوَةُ ٱلْحَقِّ ۖ وَٱلَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِۦ لَا يَسْتَجِيبُونَ لَهُم بِشَىْءٍ إِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّيْهِ إِلَى ٱلْمَآءِ لِيَبْلُغَ فَاهُۥ وَمَا هُوَ بِبَٰلِغِهِۦ ۚ وَمَا دُعَآءُ ٱلْكَـٰفِرِينَ إِلَّا فِى ضَلَـٰلٍۢ
اسی کے لیے ہے سچی پکار (یعنی اللہ کے لیے)، اور وہ جنہیں لوگ اللہ کے سوا پکارتے ہیں، وہ ان کی کوئی دعا قبول نہیں کرتے یہ تو ایسا ہے جیسے کوئی شخص اپنے دونوں ہاتھ پانی کی طرف پھیلائے تاکہ وہ پانی اس کے منہ تک پہنچ جائے، حالانکہ وہ کبھی نہیں پہنچتا۔اور کافروں کی پکار (دعائیں) تو محض گمراہی میں ہیں۔
(الرعد – 14)
پکارنا، امید رکھنا، مانگنا یہ سب اللہ کا حق ہے۔ جو خود کسی چیز کے مالک نہیں، اسے معبود بنانا یا پکارنا حماقت ہے۔ اس طرح ہر مثال عقیدۂ توحید کا اعلان اور شرک کی بیخ کنی کرتی ہے۔