قرآنِ مجید نے رسول اللہ ﷺ کی قیادت میں جہاد کی تیاری کو نہایت حکمت، صبر، تربیت اور اللہ پر توکل کے ساتھ بیان کیا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے مسلمانوں کو سب سے پہلے عقیدہ توحید پر مضبوط کیا، دلوں میں آخرت کی جوابدہی کا یقین پیدا کیا، پھر صبر، نظم، تقویٰ اور قربانی کی عملی تربیت دی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ حَرِّضِ ٱلْمُؤْمِنِينَ عَلَى ٱلْقِتَالِۚ
اے نبی! ایمان والوں کو قتال (جہاد) پر ابھاریے۔
(الأنفال 65)
رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو نہ صرف جسمانی بلکہ روحانی طور پر بھی تیار کیا۔ فرمایا کہ
ایک دن اور ایک رات کا سرحد پر پہرہ دینا ایک مہینے کے روزوں اور قیام (صلوۃِ شب) سے بہتر ہے۔ اور اگر وہ (سرحد پر پہرہ دیتے ہوئے) مر جائے تو وہ عمل جو وہ کرتا تھا، اس کا ثواب جاری رہتا ہے، اس کا رزق جاری رکھا جاتا ہے، اور وہ قبر کے فتنے سے محفوظ رہتا ہے۔
(صحيح مسلم 1913)
الغرض کہ اللہ کی راہ میں شہادت کا بلند مقام بیان فرمایا۔ مسلمانوں کو صف بندی، نظم و ضبط اور امیر کی اطاعت سکھائی۔ نیت کی اصلاح اور اخلاص کو ہر عمل سے مقدم رکھا۔ غزوات کی تیاری کے وقت آپ ﷺ نے صحابہ کو مشورے دیے، ان کے مشوروں کو سنا، اور سب کو ایک صف میں کھڑا کیا، چاہے وہ مہاجر ہو یا انصاری۔ اس سے امت میں اتحاد، ایثار اور بھائی چارہ پیدا ہوا۔
یہی اندازِ تربیت آج بھی مسلمانوں کے لیے نمونہ ہے کہ دینی فریضوں میں اللہ پر یقین، نیت کی صفائی، اور عملی نظم ہی اصل کامیابی کی کنجی ہے۔