اللہ کی کن نعمتوں کو انسان فراموش کرتا ہے، اور ان پر غور کرنے کا فائدہ کیا ہے؟

قرآنِ مجید نے انسان کو بارہا یاد دہانی کرائی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی بے شمار نعمتوں سے گھرا ہوا ہے، مگر اکثر وہ ان نعمتوں کو نظر انداز کرتا، یا ان کا غلط استعمال کرتا ہے۔ ان نعمتوں پر غور کرنے سے نہ صرف شکر کا جذبہ پیدا ہوتا ہے بلکہ ایمان، توکل اور بندگی بھی مضبوط ہوتی ہے۔

وَإِن تَعُدُّوا۟ نِعْمَةَ ٱللَّهِ لَا تُحْصُوهَآ ۗ إِنَّ ٱلْإِنسَـٰنَ لَظَلُومٌۭ كَفَّارٌ
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکو گے، بے شک انسان بڑا ہی ظلم کرنے والا، ناشکرا ہے۔
( ابراہیم: 34)

انسان جن نعمتوں کو بھول جاتا ہے ان میں زندگی، صحت اور فراغت اکثر لوگ زندگی کی قدر تب کرتے ہیں جب بیماری یا موت قریب آ جائے۔

رزق اور سکون: روزانہ کا کھانا، چھت، اور سکونِ قلب بھی عظیم نعمتیں ہیں، مگر لوگ انہیں معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں۔

ایمان اور ہدایت: سب سے بڑی نعمت ایمان کی ہے، مگر لوگ اس پر نہ غور کرتے ہیں، نہ اس کی حفاظت کی فکر۔

قرآن اور نبی ﷺ کی تعلیمات کے مطابق یہ رہنمائی کا نور ہے، مگر اکثر دل اس سے غافل رہتے ہیں۔

ان نعمتوں پر غور کا فائدہ یہ ہے کہ شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے شکر سے اللہ نعمتوں میں اضافہ فرماتا ہے
لَئِن شَكَرْتُمْ لَأَزِيدَنَّكُمْ (ابراہیم: 7)

غرور اور بے نیازی ختم ہوتی ہے اور انسان اپنی کمزوری کو پہچانتا ہے اور عاجزی سیکھتا ہے۔

اللہ سے تعلق مضبوط ہوتا ہے جب بندہ ہر نعمت کو رب کی طرف سے مانتا ہے، تو وہ اُس سے قریب ہو جاتا ہے۔ اور دنیا کی بے ثباتی کا شعور آتا ہے دنیا کی عارضی نعمتیں انسان کو آخرت کی تیاری کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ انسان اگر اللہ کی نعمتوں پر غور کرے، تو وہ شکر گزار، متواضع، اور اللہ سے قریب ہو جاتا ہے۔ یہی غور و فکر قرآن کا مقصد بھی ہے، اور یہی ہدایت کا دروازہ ہے۔ بندگی کی ابتدا نعمت کی پہچان اور شکر سے ہوتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

کیا فرشتے مشرکین کی روح نکالتے وقت باطل معبودوں کے بارے میں پوچھتے ہیں؟کیا فرشتے مشرکین کی روح نکالتے وقت باطل معبودوں کے بارے میں پوچھتے ہیں؟

جی ہاں، قرآن کریم میں اس بات کا ذکر موجود ہے کہ فرشتے جب مشرکین کی روح قبض کرتے ہیں تو وہ باطل معبودوں کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔

کیا آج کی دینی دعوت میں اعتقادی پہلو کمزور ہو گیا ہے؟کیا آج کی دینی دعوت میں اعتقادی پہلو کمزور ہو گیا ہے؟

آج کے زمانے میں دینی دعوت میں اعتقادی (عقیدے سے متعلق) پہلو عمومی طور پر کمزور ہوتا جا رہا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ دین کا ظاہری عمل