قرآنِ مجید ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے بلند اور برتر ہے، اور وہ عرش پر مستوی ہے۔ اللہ کا مقام مخلوق جیسا نہیں، لیکن قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ وہ عرش پر ہے، اور ساتھ ہی ہر چیز کا علم رکھنے والا، ہر جگہ سے باخبر، اور اپنے بندوں کے قریب بھی ہے۔
اللہ فرماتا ہے کہ
ٱلرَّحْمَـٰنُ عَلَى ٱلْعَرْشِ ٱسْتَوَىٰ
الرحمٰن عرش پر مستوی ہوا۔
(طٰہٰ 5)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ اللہ نے عرش کو تخلیق فرمایا اور اس پر بلند ہوا، جو اس کی عظمت، اقتدار اور بلند مرتبے کی علامت ہے۔ وہ مخلوق سے جدا ہے، نہ وہ زمین میں ہے، نہ مخلوق کے اندر، نہ قبروں میں، اور نہ کسی مادی شکل میں۔ وہ بلند ہے، بے نیاز ہے جیسے اس کی شان کے لائق ہے۔
اسی کے ساتھ، اللہ یہ بھی فرماتا ہے کہ
وَهُوَ مَعَكُمْ أَيْنَ مَا كُنتُمْ
اور وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں تم ہو۔
(الحدید 4)
یہ معیت (ساتھ ہونا) علم، قدرت اور نگرانی کے اعتبار سے ہے، نہ کہ جسمانی موجودگی کے اعتبار سے۔ یعنی وہ بندے کے دل کی بات بھی جانتا ہے، رات کی تاریکی میں ہونے والے عمل سے بھی باخبر ہے، اور رازوں کو بھی سنتا ہے۔
نہ قرآن میں، نہ نبی کریم ﷺ کے طریقے میں کوئی ایسا تصور ملتا ہے کہ ذات کے اعتبار سے اللہ زمین میں کہیں موجود ہو، یا کسی مخلوق کے اندر حلول کر جائے۔(معاذاللہ)
نبی کریم ﷺ نے ایک صحابیہ سے پوچھا
«أين الله؟» قالت في السماء، قال «من أنا؟» قالت أنت رسول الله، قال «أعتقها فإنها مؤمنة»
آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کہاں ہے؟
اس نے کہا آسمان میں (یعنی بلندی میں)
آپ ﷺ نے فرمایا میں کون ہوں؟
اس نے کہا آپ اللہ کے رسول ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا اسے آزاد کر دو، یہ مؤمنہ ہے۔
(صحیح مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب تحریم الكلام في الصلاة ونسخ ما كان من إباحته، حدیث نمبر 537)
یہ حدیث اس بات کا صریح ثبوت ہے کہ اللہ کا مقام بلند ہے، آسمانوں سے اوپر، عرش پر۔ مگر اس کی قدرت، علم، اور رحمت ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے۔
اللہ نہ قبروں میں ہے، نہ مزاروں پر، نہ کسی مخلوق میں وہ اپنی مخلوق سے جدا ہے، مگر اس پر ہر پہلو سے محیط ہے۔
پس اہلِ ایمان کو یہی سکھایا گیا ہے کہ وہ رب کی عظمت کا یقین رکھیں، اسی کی طرف دل سے دعا کریں، اور یہ جان لیں کہ اللہ بلند ہے، مگر ہر حال میں سننے والا، دیکھنے والا، اور قبول کرنے والا ہے۔