قرآنِ مجید نے جن مومنین کو السّابِقونَ الأوّلون کہا، ان کی ایمان، قربانی، اور دینِ اسلام میں سبقت کے باعث خاص تعریف فرمائی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے ابتدائی دور میں، سختیوں اور آزمائشوں کے باوجود، ایمان قبول کیا اور دین کے لیے جان و مال سے قربانی دی۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَٱلسَّـٰبِقُونَ ٱلْأَوَّلُونَ مِنَ ٱلْمُهَـٰجِرِينَ وَٱلْأَنصَارِ وَٱلَّذِينَ ٱتَّبَعُوهُم بِإِحْسَـٰنٍۢ رَّضِىَ ٱللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا۟ عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍۢ تَجْرِى تَحْتَهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًۭا ۚ ذَٰلِكَ ٱلْفَوْزُ ٱلْعَظِيمُ
اور مہاجرین اور انصار میں سے سب سے پہلے (ایمان لانے والے) اور وہ لوگ جنہوں نے ان کی نیکی کے ساتھ پیروی کی، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے، اور اللہ نے ان کے لیے ایسے باغ تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔
( التوبہ 100)
مہاجرین وہ صحابہ جنہوں نے مکہ سے ہجرت کی، اپنا گھر بار، مال، اور رشتہ دار چھوڑ کر مدینہ آئے صرف اللہ اور اس کے رسول کے لیے۔
انصار مدینہ کے وہ لوگ جنہوں نے نبی ﷺ اور مہاجرین کا دل و جان سے استقبال کیا، ان کی مدد کی، اور دینِ اسلام کو پھیلایا۔
اتباع کرنے والے وہ مسلمان جو بعد میں آئے، لیکن مہاجرین و انصار کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے، ایمان، اخلاص، اور عمل صالح میں ان کے تابع بنے۔
والسابقون الأولون کا مفہوم صرف تاریخی سبقت نہیں، بلکہ قربانی، سچائی، اور دین پر ثابت قدمی میں پیش قدمی ہے۔ یہ آیت ہمیں بتاتی ہے کہ صحابہ کرامؓ کی راہ، ان کا عقیدہ اور عمل، اللہ کی رضا کا راستہ ہے اور ان کی پیروی، ہمارے لیے کامیابی کی ضمانت ہے۔
پس، جو لوگ ایمان میں سبقت لے جائیں، اور سچے جذبے سے دین کی خدمت کریں، ان کے لیے اللہ کی رضا، جنت اور دائمی کامیابی کی خوشخبری ہے۔