اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں نبوت اور کتاب ایک عظیم مقصد کے تحت دی، جسے قرآن مجید میں متعدد مقامات پر واضح کیا گیا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد انسانیت کی ہدایت، عدل کا قیام، اور توحید کے پیغام کی اشاعت ہے۔
انسانوں کو ہدایت دینا
وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ…
اور ہم نے ان دونوں (ابراہیم علیہ السلام و اسحاق علیہ السلام) کی نسل میں نبوت اور کتاب رکھ دی…
(العنكبوت 27)
یہاں واضح ہے کہ نبوت اور کتاب کو ابراہیم علیہ السلام کی نسل میں جاری رکھا گیا تاکہ لوگوں کو اللہ کی طرف بلایا جا سکے اور گمراہی سے نکالا جا سکے۔
عدل و انصاف کا قیام
لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَأَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ…
ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان (عدل کا ترازو) نازل کیا تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں…
( الحديد 25)
یہ آیت نبوت اور کتاب کے مقصد کو نہایت جامع انداز میں بیان کرتی ہے یعنی ایک منصفانہ معاشرہ کا قیام مقصود ہے۔
امت کو ہدایت یافتہ اور مقتدا بنانا
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا…
اور جب ابراہیم علیہ السلام کو ان کے رب نے کچھ باتوں سے آزمایا اور وہ اُن میں پورے اُترے، تو فرمایا میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں…
(البقرة 124)
یہ امامت، صرف قیادت نہیں بلکہ اخلاقی، روحانی اور دعوتی قیادت ہے، جو نبوت و کتاب کے ساتھ ہی ممکن ہوتی ہے۔
دینِ حق کو غالب کرنا
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ…
وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام دینوں پر غالب کر دے…
(التوبة 33)
یہ غلبہ صرف سیاسی نہیں بلکہ فکری، اخلاقی، اور روحانی غلبہ ہے جو نبیوں کی بعثت کا ایک اہم مقصد ہے۔