اللہ تعالیٰ قرآن میں پاکیزہ کلام بولنے کے بارے میں کیا فرماتا ہے؟

اللہ تعالیٰ قرآنِ حکیم میں پاکیزہ اور نرمی سے بھرپور کلام کو پسندیدہ اور بابرکت عمل قرار دیتا ہے۔ کلام صرف الفاظ کا تبادلہ نہیں بلکہ دلوں کا آئینہ اور کردار کا ترجمان ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن ہمیں سکھاتا ہے کہ ہماری زبان سے نکلنے والے الفاظ ایسے ہوں جو خیر، اصلاح اور محبت کا سبب بنیں۔ نرم، سچائی پر مبنی اور خوش اخلاقی سے ادا کردہ گفتگو دلوں کو جوڑتی ہے، جب کہ سخت، گندی یا تضحیک آمیز زبان فساد اور نفرت کا ذریعہ بنتی ہے۔

أَلَمْ تَرَ كَيْفَ ضَرَبَ ٱللَّهُ مَثَلًۭا كَلِمَةًۭ طَيِّبَةًۭ كَشَجَرَةٍۢ طَيِّبَةٍ أَصْلُهَا ثَابِتٌۭ وَفَرْعُهَا فِى ٱلسَّمَآءِ۝ تُؤْتِىٓ أُكُلَهَا كُلَّ حِينٍۢ بِإِذْنِ رَبِّهَا ۗ
کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے پاکیزہ بات کی مثال ایک پاکیزہ درخت سے دی ہے، جس کی جڑ مضبوط ہو اور شاخیں آسمان میں ہوں۔ وہ ہر وقت اپنے رب کے حکم سے پھل دیتا ہے۔
(ابراہیم 24–25)

یہ آیت ایک گہری تمثیل پیش کرتی ہے کہ پاکیزہ کلام ایسا ہے جیسے ایک درخت جو نہ صرف خوبصورت ہوتا ہے بلکہ فائدہ مند بھی۔ ایسا کلام دوسروں کے دلوں میں نرمی، اصلاح اور ہدایت کا اثر چھوڑتا ہے۔ اس کے برعکس قرآن گندے کلام، جھوٹ، طعنہ زنی اور فحش گوئی کو سخت ناپسند کرتا ہے۔

وَقُل لِّعِبَادِى يَقُولُوا۟ ٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ ٱلشَّيْطَـٰنَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ
اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ وہ (ایسی) بات کریں جو سب سے بہتر ہو، بے شک شیطان ان کے درمیان فساد ڈالتا ہے۔
(الإسراء 53)

یہ حکم اس بات کی یاد دہانی ہے کہ زبان کا صحیح استعمال شیطان کے وار کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ اگر انسان اچھے انداز میں بات کرے تو وہ دشمنی کو دوستی میں بدل سکتا ہے، جب کہ تلخ زبان قریبی دلوں میں بھی دوری پیدا کر دیتی ہے۔

قرآن ہمیں یہ شعور دیتا ہے کہ زبان کی پاکیزگی دل کی پاکیزگی کی علامت ہے۔ جو شخص ایمان رکھتا ہے، اس کے کلام میں خیر، سچائی اور محبت ہوتی ہے۔ پاکیزہ بات صدقہ ہے، اور اس سے نیکیوں کا ایک درخت اگتا ہے جس کا پھل دنیا و آخرت میں نصیب ہوتا ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Post

مشرک لوگ کیا اپنے شرک کا الزام بھی اللہ کو دیتے تھے؟مشرک لوگ کیا اپنے شرک کا الزام بھی اللہ کو دیتے تھے؟

جی ہاں، قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ مشرک لوگ اپنے شرک اور گمراہی کا الزام بھی اللہ تعالیٰ پر ڈالنے کی جسارت کرتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ اگر

قرآن میں لوگوں کے درمیان صلح کروانے کی کیا فضیلت ہے؟قرآن میں لوگوں کے درمیان صلح کروانے کی کیا فضیلت ہے؟

اللہ تعالیٰ نے قرآنِ حکیم میں لوگوں کے درمیان صلح کروانے کو ایک عظیم نیکی اور اللہ کے قرب کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ جب دو افراد یا گروہوں کے