قرآنِ کریم میں سچ بولنے والوں کو نہایت بلند مقام دیا گیا ہے، کیونکہ سچائی ایمان، عدل اور تقویٰ کی بنیاد ہے۔ اللہ تعالیٰ الاحزاب میں ارشاد فرماتا ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَقُولُوا قَوْلًا سَدِيدًا، يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَالَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور بات سیدھی (سچی) کہا کرو، وہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا۔
(الاحزاب – 70، 71)
اس آیت میں سچائی کو نجات اور اصلاحِ اعمال کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے، اور یہ وعدہ دیا گیا ہے کہ جو سچ بولے گا، اللہ اس کے اعمال کو سنوار دے گا۔
مزید توبہ میں حکم ہے کہ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
(التوبہ-119)
یہ آیت ہمیں سچوں کی صحبت اختیار کرنے اور جھوٹ سے دور رہنے کی تلقین کرتی ہے، کیونکہ جھوٹ صرف زبان کا گناہ نہیں بلکہ معاشرتی فساد، بےاعتمادی اور دل کی خرابی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ قرآن ہمیں سچائی کی راہ اختیار کرکے ایسے لوگوں میں شامل ہونے کی دعوت دیتا ہے جو اللہ کے محبوب اور جنت کے حقدار ہوتے ہیں۔
اصلاحی اعتبار سے دیکھا جائے تو سچ بولنا صرف ایک فضیلت نہیں، بلکہ دل کا سکون، تعلقات کی بہتری، اور معاشرے کی فلاح کا راستہ ہے۔ جو شخص ہر حال میں سچ کہتا ہے، وہ لوگوں کے اعتماد اور اللہ کی رضا دونوں کو حاصل کرتا ہے۔ سچائی انسان کو نفاق، ریاکاری، فریب اور ظلم سے بچاتی ہے، اور اُسے ایک سچے، نیک اور باوقار انسان بناتی ہے جیسا کہ قرآن میں مطلوب ہے۔