قرآنِ مجید نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کرنے والوں کے لیے سخت وعید اور دنیا و آخرت میں ذلت آمیز انجام بیان فرمایا ہے۔ یہ حکم اُن لوگوں کے بارے میں ہے جو اسلامی ریاست کے خلاف بغاوت، فساد، قتل و غارت یا دینِ اسلام کو مٹانے کی منظم کوشش کریں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
إِنَّمَا جَزَٰٓؤُا۟ ٱلَّذِينَ يُحَارِبُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَيَسْعَوْنَ فِى ٱلْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوٓا۟ أَوْ يُصَلَّبُوٓا۟ أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَـٰفٍ أَوْ يُنفَوْا۟ مِنَ ٱلْأَرْضِۚ
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں، ان کی سزا یہی ہے کہ انہیں قتل کیا جائے، یا سولی دی جائے، یا ان کے ہاتھ پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹ دیے جائیں، یا انہیں زمین سے جلا وطن کر دیا جائے۔
(المائدہ 33)
یہ آیت ان باغیوں اور دین کے کھلے دشمنوں کے لیے ہے جو معاشرے میں کھلم کھلا فساد، دہشت اور بغاوت پھیلائیں۔
نبی کریم ﷺ نے بھی ایسے مجرموں کو سخت سزائیں دیں، اور اسلامی ریاست کے نظم و امن کی حفاظت کو ایمان کا حصہ قرار دیا۔
صحابہ کرامؓ کے دور میں بھی جب کوئی گروہ اللہ اور اس کے رسول کی شریعت کے خلاف بغاوت کرتا یا زمین میں فساد برپا کرتا تو قاضی اور حکام قرآن کی اسی آیت کی روشنی میں ان پر حدود نافذ کرتے۔
اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے دشمنی اور بغاوت صرف انفرادی جرم نہیں، بلکہ اجتماعی فساد ہے۔ ایسے افراد کے لیے سخت ترین دنیاوی سزا اور آخرت میں دردناک عذاب مقدر ہے، تاکہ معاشرہ عدل، امن، اور اللہ کے دین پر قائم رہ سکے۔