قرآنِ کریم میں اصلاحِ نفس کو انسان کی حقیقی فلاح اور نجات کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ انسان کا نفس خواہشات، غرور، حسد اور دنیا کی محبت کی طرف مائل ہوتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے ان رجحانات پر قابو پانے اور نفس کو پاک کرنے کی تعلیم دی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی پوری زندگی اصلاحِ نفس کا عملی نمونہ ہے، جس میں خشیت، عاجزی، حلم، صبر اور تقویٰ نمایاں صفات ہیں۔
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّىٰهَا وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّىٰهَا
“بے شک وہ کامیاب ہوا جس نے اپنے نفس کو پاک کیا، اور وہ نامراد ہوا جس نے اسے گناہوں میں دبایا۔”
(سورۃ الشمس: 9-10)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ فلاح (کامیابی) اور خسران (نقصان) کا مدار نفس کی پاکیزگی پر ہے۔ جو انسان اپنے نفس کو گناہوں سے پاک کرتا ہے، تقویٰ اختیار کرتا ہے اور اپنی خواہشات پر قابو پاتا ہے، وہی اللہ کے نزدیک کامیاب ہے۔ جبکہ نفس کی پیروی اور اس کو آزاد چھوڑ دینا گمراہی اور تباہی کا سبب بنتا ہے۔
تاریخ میں ہمیں یوسفؑ کی مثال ملتی ہے، جنہوں نے شہوت، ظلم اور بدلے کے مواقع کے باوجود اپنے نفس پر قابو رکھا۔ فرمایا:
“إِنَّهُۥ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ ٱلْمُحْسِنِينَ”
“بے شک جو تقویٰ اور صبر اختیار کرے، اللہ نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔”
( یوسف: 90)
اصلاحِ نفس کی یہ سعی آج کے دور میں بھی لازم ہے، جہاں دنیا کی چمک دمک، میڈیا، اور فتنہ پرور ماحول دلوں کو گناہوں کی طرف کھینچتے ہیں۔ ایسے میں تقویٰ، استغفار، علم، سادہ طرزِ زندگی اور نیک صحبت اختیار کرنا اصلاحِ نفس کے بنیادی ذرائع ہیں۔
یعنی سب سے بڑا جہاد اپنی خواہشات، غصہ، حسد، ریا اور کینہ جیسے باطنی امراض سے لڑنا ہے۔ اسی جدوجہد سے دل نرم ہوتا ہے، عمل صالح جنم لیتا ہے، اور انسان اللہ کی رضا کے قریب ہو جاتا ہے۔ اصلاحِ نفس درحقیقت توحید، سنت اور خالص عقیدہ کی طرف لوٹنے کا نام ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو دنیا میں سکون اور آخرت میں کامیابی عطا کرتا ہے۔