اصحابِ کہف کا واقعہ قرآن مجید میں ایک عظیم الشان نشان اور سبق کے طور پر بیان کیا گیا ہے، جو ایمان، توحید، اللہ کی قدرت، اور قیامت کے یقین کو دلوں میں تازہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس واقعے کو محض کہانی کے طور پر نہیں بلکہ عقیدے کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کے لیے ذکر فرمایا ہے۔
اللہ نے قرآن میں اس واقعے کو بیان کرنے کی کیا حکمت بتائی؟
وَكَذَٰلِكَ أَعْثَرْنَا عَلَيْهِمْ لِيَعْلَمُوٓا۟ أَنَّ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقٌّۭ وَأَنَّ ٱلسَّاعَةَ لَا رَيْبَ فِيهَا
اور اس طرح ہم نے (لوگوں کو) ان پر مطلع کر دیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ سچا ہے اور یہ کہ قیامت یقیناً آ کر رہے گی، اس میں کوئی شک نہیں۔
( الکہف 21)
اس واقعے کی قرآنی حکمتیں اور دلائل
قیامت پر یقین کا عملی ثبوت
اللہ نے اصحابِ کہف کو تین سو نو سال تک سلائے رکھا اور پھر بیدار کر دیا یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اللہ مرنے والوں کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے اس سے بعث بعد الموت (مرنے کے بعد جی اُٹھنا) کا عقیدہ تقویت پاتا ہے۔
ایمان والوں کے لیے تسلی
اصحابِ کہف نوجوان، مخلص اور توحید پرست تھے
ان کا یہ عمل دکھاتا ہے کہ اللہ ایمان والوں کو ضائع نہیں کرتا، بلکہ ان کی حفاظت کرتا ہے چاہے صدیاں گزر جائیں
یہ بتاتا ہے کہ اللہ کائنات کے قوانین کا خالق ہے اور جب چاہے، ان میں مافوق الاسباب تبدیلی کر سکتا ہے
دعوتِ حق اور صبر پر استقامت کی ترغیب
نوجوانوں نے باطل نظام کے خلاف ہجرت کی، ایمان پر ڈٹے رہے
اللہ نے ان کو نشانِ عبرت بنایا تاکہ اہلِ ایمان یہ سیکھیں کہ دین کی راہ میں صبر کا پھل عظیم ہوتا ہے
غلو اور بدعات سے بچاؤ کی تعلیم
لوگوں نے ان کے مقام پر عبادت گاہ بنانے کا ارادہ کیا
قرآن نے اس کو عقیدے میں افراط کے طور پر بیان کیا، جو ہمیں توازن و اعتدال کی دعوت دیتا ہے۔اصحابِ کہف کا واقعہ صرف ایک قصہ نہیں، بلکہ وہ جیتی جاگتی دلیل ہے کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، قیامت ایک یقینی حقیقت ہے اور ایمان کی راہ میں قربانی کبھی ضائع نہیں جاتی۔