قرآنِ مجید نے اصحابِ کہف کا واقعہ حق پر ثابت قدمی، توحید پر ایمان اور دنیا کی فانی زندگی سے بے رغبتی کی روشن مثال کے طور پر بیان فرمایا ہے۔ ان نوجوانوں نے باطل نظام سے کنارہ کشی اختیار کی اور اللہ کی رضا کے لیے ایک غار میں پناہ لی۔ یہ واقعہ عقیدۂ توحید، تقویٰ، اور دنیوی آزمائشوں میں صبر و استقامت کا عملی درس دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ
إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى
“بے شک وہ چند نوجوان تھے جنہوں نے اپنے رب پر ایمان لایا، اور ہم نے ان کی ہدایت میں اضافہ کر دیا۔”
( الکہف: 13)
یہ آیت ہمیں سکھاتی ہے کہ سچا ایمان اللہ کی طرف سے مزید ہدایت کا سبب بنتا ہے۔ اصحابِ کہف کا یہ ایمان خالص توحید پر مبنی تھا، جس کے بدلے اللہ نے انہیں دنیا میں عزت اور آخرت میں نجات عطا کی۔
اصحابِ کہف کا سب سے اہم عقیدہ یہ تھا کہ رب صرف اللہ ہے، اور اس کے سوا کسی کو نہ پکاراتے تھے، نہ سجدہ کرتے، نہ سفارش کے لیے وسیلہ بناتے تھے۔ انہوں نے اپنے وقت کے مشرکانہ نظام سے صاف لاتعلقی اختیار کی اور دینِ خالص کو اپنایا، خواہ اس کے لیے تنہائی، فقر یا موت ہی کیوں نہ ہو۔
حق پر استقامت ہونی چاہئے خواہ معاشرہ کتنا ہی باطل پرست ہو، مؤمن کو دین پر ثابت قدم رہنا چاہیے۔ تنہائی بہتر ہے، اگر ایمان محفوظ ہو۔ جب معاشرہ دین سے دور ہو جائے اور کسی ایمان لانے والے کی راہ روکنے پر کمربستہ ہوجائے، اسے قید و قتل اور سنگسار کی دھمکیاں دینے لگے تو ایمان بچانے کے لیے گوشہ نشینی بھی اختیار کی جا سکتی ہے۔ ہمیشہ اللہ کی مدد پر یقین رکھے، کہ اللہ ایمان والوں کی مدد کرتا ہے خواہ وہ چند ہی کیوں نہ ہوں۔ اصحابِ کہف تین سو سال سے زیادہ عرصہ غار میں سوئے رہے، اور اللہ نے انہیں محفوظ رکھا یہ اللہ کی غیبی مدد کی دلیل ہے۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے بھی ہجرت کا راستہ اختیار کیا جب کفارِ مکہ نے دین پر عمل مشکل کر دیا۔ اسی طرح اصحابِ کہف نے بھی ہجرت کی، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ بچانے کے لیے ترکِ وطن بھی عبادت ہے۔ اصحابِ کہف کا واقعہ ہمیں سکھاتا ہے کہ توحید پر ایمان، صبر، اور دنیاوی لالچ سے بے رغبتی ہی مؤمن کی پہچان ہے۔ یہ قصہ ہر دور کے نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہے کہ جب ماحول ایمان کے خلاف ہو، تو اللہ پر توکل اور حق پر جمے رہنا ہی نجات کا راستہ ہے۔