اصحابِ کہف نے غار میں پناہ اس لیے لی کہ وہ ایک ظالم، مشرک، اور جابر بادشاہ کے دور میں اپنے ایمان کی حفاظت چاہتے تھے۔ وہ توحید (اللہ کی وحدانیت) پر ایمان لا چکے تھے، جبکہ ان کی قوم اور بادشاہ بت پرستی اور شرک میں ڈوبے ہوئے تھے۔
إِذْ أَوَى ٱلْفِتْيَةُ إِلَى ٱلْكَهْفِ فَقَالُوا۟ رَبَّنَآ ءَاتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةًۭ وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًۭا
جب وہ چند نوجوان غار کی طرف جا نکلے اور کہا اے ہمارے رب! ہمیں اپنی طرف سے رحمت عطا کر اور ہمارے معاملے میں ہمارے لیے راہِ راست مہیا فرما۔
(الكهف10)
شرک اور جبری دین کا ماحول
ان پر زور ڈالا جا رہا تھا کہ وہ شرک کو قبول کریں اگر وہ ایمان چھوڑنے سے انکار کرتے تو قتل یا سخت سزا کا سامنا ہوتا
ایمان کی حفاظت
انہوں نے فیصلہ کیا کہ اگر وہ اس ماحول میں رہیں گے تو ایمان خطرے میں پڑے گا لہٰذا وہ دنیاوی زندگی چھوڑ کر اللہ کی رضا کے لیے غار میں چلے گئے
اللہ پر توکل اور دعا
انہوں نے دعا کی کہ اللہ ان کے لیے رحمت اور ہدایت کا راستہ کھولے غار میں جا کر وہ اللہ پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے چھپ گئے