دعا بندگی کی بلند ترین شکل ہے، جس میں انسان عاجزی کے ساتھ کسی کو اپنی حاجت کے پورا کرنے والا سمجھ کر پکارتا ہے۔ قرآن میں جہاں بھی دعا کا ذکر ہے، وہ صرف اللہ کے لیے آیا ہے۔ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ کا مطلب ہے کہ اللہ ہی وہ ذات ہے جو پکارنے پر جواب دیتا ہے، اور حاجتیں پوری کرنے کی قدرت صرف اسی کے پاس ہے۔ اس لیے دعا کرنا، مانگنا اور مدد طلب کرنا صرف اسی کے لیے مخصوص ہے، کیونکہ وہی سميع اور قريب ہے، باقی سب محتاج اور بےبس ہیں۔
ٱدْعُونِىٓ أَسْتَجِبْ لَكُمْ
تم مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
(غافر 60)
اس آیت میں ادعونی کا خطاب صرف اللہ کی طرف سے ہے، یعنی صرف وہی ذات ہے جو اپنے بندوں کی فریاد سنتی اور قبول کرتی ہے۔ کسی اور سے دعا کرنا یا فریاد کرنا اس آیت کے مفہوم اور عقیدہ توحید کی سراسر مخالفت ہے۔ اگر کسی مخلوق کو پکارا جا رہا ہو، خواہ وہ نبی ہو یا ولی، تو گویا دعا کا یہ عمل اللہ کے بجائے اس مخلوق کی طرف پھیر دیا گیا، جو شرکِ اکبر کے دائرے میں آتا ہے۔
وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنْ يَدْعُوا۟ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُۥٓ إِلَىٰ يَوْمِ ٱلْقِيَـٰمَةِ وَهُمْ عَن دُعَآئِهِمْ غَـٰفِلُونَ
اور اس سے بڑھ کر گمراہ کون ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارتا ہے جو قیامت تک ان کی دعا قبول نہیں کر سکتے، اور وہ ان کی دعا سے بےخبر ہیں۔
(الأحقاف 5)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ جو لوگ اللہ کے سوا دوسروں کو پکارتے ہیں وہ سخت گمراہی میں ہیں، کیونکہ جنہیں پکارا جا رہا ہے وہ تو خود کسی کو سننے یا جواب دینے پر قادر نہیں۔
ادعونی أستجب لکم کا مفہوم صرف اللہ کے لیے مختص اس لیے ہے کہ دعا ربوبیت کا مظہر ہے۔ صرف اللہ ہی خالق، رازق، سمیع، بصیر اور مجیب الدعوات ہے۔ اگر کوئی کسی اور سے دعا کرتا ہے تو وہ نہ صرف شرک کر رہا ہے بلکہ اللہ کے ساتھ بداعتمادی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ نجات، مدد، شفا، مغفرت، بخشش سب کچھ صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔ انبیاء، اولیاء، یا صالحین سے دعا کرنا، یا ان سے مدد طلب کرنا، عقیدہ توحید کی نفی ہے اور دین اسلام کی بنیاد کو ہلا دیتا ہے۔
لہٰذا، ادعونی أستجب لکم عقیدہ توحید کا سنگ بنیاد ہے کہ بندہ صرف اللہ سے مانگے، اسی پر بھروسہ کرے، اور اسی سے مدد طلب کرے۔