ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد آزر کو نرمی، حکمت، اور دلیل کے ساتھ شرک سے روکا۔ قرآن مجید نے ان کے مکالمے کو کئی جگہوں پر نقل کیا ہے، خاص طور پر مریم (آیات 41–45) اور الانعام (آیات 74–83) میں۔ ان آیات سے واضح ہوتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے عقلی، اخلاقی، اور روحانی بنیادوں پر اپنے والد کو سمجھانے کی کوشش کی۔
وہ دلیلیں جن سے ابراہیم علیہ السلام نے اپنے والد کو شرک سے روکا
- علمی برتری کی بنیاد پر نصیحت
يَا أَبَتِ إِنِّي قَدْ جَاءَنِي مِنَ الْعِلْمِ مَا لَمْ يَأْتِكَ، فَاتَّبِعْنِي أَهْدِكَ صِرَاطًا سَوِيًّا
اے میرے باپ! مجھے ایسا علم حاصل ہوا ہے جو آپ کو نہیں ملا، پس میری پیروی کیجیے، میں آپ کو سیدھی راہ پر لے چلوں گا۔
(مریم 43)
ابراہیم علیہ السلام نے عاجزی سے کہا کہ میرے پاس وحی کا علم ہے، اس لیے میں آپ کو بہتر طریقے سے راہ دکھا سکتا ہوں۔
- غلطی کی نشاندہی معبود تو سن بھی نہیں سکتے
يَا أَبَتِ لِمَ تَعْبُدُ مَا لَا يَسْمَعُ وَلَا يُبْصِرُ وَلَا يُغْنِي عَنكَ شَيْئًا
اے میرے باپ! آپ ان کو کیوں پوجتے ہیں جو نہ سنتے ہیں، نہ دیکھتے ہیں، اور نہ ہی آپ کا کچھ بھلا کر سکتے ہیں؟
(مریم 42)
يَا أَبَتِ لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ ۖ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلرَّحْمَـٰنِ عَصِيًّا
اے ابا جان آپ شیطان کی پیروی نہ کریں بیشک شیطان رحمان کا سخت نافرمان ہے۔
(مریم 44)
یہ ایک عقلی دلیل ہے کہ جو چیز سننے، دیکھنے اور مدد دینے کی صلاحیت نہ رکھتی ہو، وہ معبود کیسے ہو سکتی ہے؟
- شرک کو شیطان کی پیروی قرار دیا
لَا تَعْبُدِ الشَّيْطَانَ
آپ شیطان کی پیروی نہ کریں
(مریم 44)
شرک کو صرف گمراہی نہیں بلکہ شیطانی عمل قرار دیا، تاکہ واضح ہو جائے کہ اس کا تعلق ہدایت سے نہیں بلکہ نافرمانی سے ہے۔
- اللہ کی رحمت کا تعارف
يَا أَبَتِ إِنِّي أَخَافُ أَن يَمَسَّكَ عَذَابٌ مِّنَ الرَّحْمَـٰنِ فَتَكُونَ لِلشَّيْطَانِ وَلِيًّا
اے میرے باپ! مجھے ڈر ہے کہ آپ کو رحمن کا عذاب آ نہ لے، اور آپ شیطان کے ساتھی بن جائیں۔
(مریم 45)
ابراہیم علیہ السلام نے محبت اور خیرخواہی کے انداز میں اپنے باپ کو انجام سے ڈرایا، اور رحمن کا لفظ استعمال کیا تاکہ اللہ کی رحمت اور عذاب دونوں پہلو نمایاں ہوں۔
- بتوں کی عاجزی ظاہر کی
قَالَ أَتَعْبُدُونَ مَا تَنْحِتُونَ 95 وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ
کیا تم ان چیزوں کو پوجتے ہو جنہیں خود تراشتے ہو، حالانکہ اللہ نے تمہیں بھی پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم بناتے ہو؟
(الصافات 95،96)
صنعتی عاجزی کو ظاہر کر کے بتایا کہ خالق اور مخلوق کے درمیان فرق سمجھو۔
اندازِ گفتگو شرینی تھا
بار بار کہا يَا أَبَتِ (اے میرے پیارے باپ!)
نرمی، ادب اور محبت سے بات کی، حالانکہ باپ مشرک اور سخت گیر تھا۔
جب والد نے انکار کیا تو ابراہیم علیہ السلام نے کہا
سَأَسْتَغْفِرُ لَكَ رَبِّي ۖ إِنَّهُ كَانَ بِي حَفِيًّا
میں آپ کے لیے اپنے رب سے استغفار کروں گا، بے شک وہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔
(مریم 47)
بعد میں اللہ تعالیٰ نے اس استغفار سے بھی روک دیا، جیسا کہ التوبہ 114 میں وضاحت ہے۔ فرمایا
وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ اِبْرٰهِيْمَ لِاَبِيْهِ اِلَّا عَنْ مَّوْعِدَةٍ وَّعَدَھَآ اِيَّاهُ ۚ فَلَمَّا تَـبَيَّنَ لَهٗٓ اَنَّهٗ عَدُوٌّ لِّلّٰهِ تَبَرَّاَ مِنْهُ ۭ اِنَّ اِبْرٰهِيْمَ لَاَوَّاهٌ حَلِيْمٌ
اور ابراہیم (علیہ السّلام ) کااپنے باپ کے لیے بخشش مانگنا صرف ایک و عدہ کی وجہ سے تھا جو انھوں نے اُس سے کیا تھا پھر جب ان پر واضح ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اُس سے بے زار ہو گئے یقیناً ابراہیم (علیہ السّلام ) بڑے ہی نرم دل ، بہت تحمل والے تھے۔