إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ کا عقیدہ اسلام کے توحیدی نظام کا مرکز و محور ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ فیصلہ کا اختیار صرف اللہ کے لیے ہے یعنی شریعت، قانون، اخلاق، جائز و ناجائز، حلال و حرام کا حق صرف اللہ کو ہے۔ یہ عقیدہ صرف عبادت میں توحید کا اعلان نہیں بلکہ نظامِ حیات، سیاست، عدل، معاشرت اور زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کی حاکمیت تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ عقیدہ ہر دور کے باطل نظاموں، خودساختہ قانون سازوں اور طاغوتی طاقتوں کی نفی ہے، اور اس بات کا اعلان ہے کہ بندہ صرف اللہ کا تابع ہے، کسی اور کا غلام نہیں۔
إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوٓا۟ إِلَّآ إِيَّاهُ
فیصلہ کا اختیار تو صرف اللہ کے لیے ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ تم صرف اسی کی عبادت کرو۔
(يوسف 40)
یہ آیت یوسف علیہ السلام کے الفاظ ہیں جو انہوں نے جیل میں اپنے ساتھیوں کو دعوتِ توحید دیتے ہوئے کہے۔ اس میں الحکم (فیصلہ، قانون، اختیار) کو خالص اللہ کے لیے مخصوص کیا گیا ہے، اور یہ واضح کیا گیا کہ عبادت صرف سجدہ یا دعا نہیں بلکہ قانون سازی اور اطاعت کا اختیار بھی صرف اللہ کو حاصل ہے۔ اس آیت نے عبادت اور حکم کو ایک وحدت میں جوڑ دیا ہے، اور اسی کو عقیدۂ توحید کی روح قرار دیا ہے۔
قرآن کا یہ تصور ہر اس معاشرے اور نظام کو چیلنج کرتا ہے جہاں انسانوں کو حاکمِ مطلق مانا جائے۔ اللہ کا اختیار ہر چیز پر ہے عبادات، تہذیب، معیشت، عدلیہ، اور سیاست۔ جو قومیں اللہ کے بجائے انسانوں کے قانون کو اختیار کرتی ہیں، وہ شرک فی الحاکمیت کا شکار ہو جاتی ہیں۔ انبیاء کی دعوت کا یہی پیغام تھا کہ رب صرف وہی نہیں جو رزق دیتا ہے، بلکہ وہی ہے جس کا حکم چلتا ہے اور اس کے حکم سے ہٹ کر اطاعت، بندگی نہیں بلکہ بغاوت ہے۔
إِنِ ٱلْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ توحید کا عملی اعلان ہے۔ یہ صرف فکری اصول نہیں بلکہ ایک عملی نظامِ اطاعت کا تقاضا کرتا ہے۔ اس عقیدے کے بغیر نہ تو شریعت مکمل ہوتی ہے، نہ بندگی، نہ نجات۔ جب مسلمان یہ تسلیم کر لیتا ہے کہ حکم صرف اللہ کا ہے، تب وہ ہر طاغوت سے آزاد ہو کر اللہ کے نورِ ہدایت میں داخل ہوتا ہے، اور یہی توحید کی اصل روح ہے۔