قرآنِ مجید اہلِ ایمان کے باہمی تعلقات اور کفار کے ساتھ رویے کی جامع رہنمائی کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی صفات بیان کرتے ہوئے ان کے دلوں کی کیفیت اور کردار کا ایک حسین توازن پیش کیا ہے، جو کہ دین کے فطری اور متوازن مزاج کی عکاسی کرتا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
مُّحَمَّدٌۭ رَّسُولُ ٱللَّهِ ۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ
محمد (ﷺ) اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحم دل ہیں۔
(الفتح 29)
یہ آیت اہلِ ایمان کے دو عظیم اوصاف بیان کرتی ہے۔
أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ
یعنی مؤمنین دینِ حق کے دشمنوں، باطل پر اصرار کرنے والوں اور اسلام سے دشمنی رکھنے والوں کے مقابلے میں مضبوط، غیرت مند اور بے لچک ہوتے ہیں۔ وہ نہ دباؤ میں آتے ہیں، نہ مداہنت کرتے ہیں۔
رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ
یعنی مسلمانوں کے آپس کے تعلقات محبت، ہمدردی اور خیر خواہی پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ ایک دوسرے کا درد رکھتے ہیں، ایثار کرتے ہیں، اور اُخوت کے بندھن میں جُڑے رہتے ہیں۔
رسول اللہ ﷺ اور صحابہؓ کا طرزِ عمل اس آیت کا عملی نمونہ تھا۔ وہ کفار کے مقابلے میں انتہائی جری اور بے خوف تھے، مگر مسلمانوں کے ساتھ انتہائی نرم دل، مشفق اور باہمی عزت و محبت سے پیش آتے۔
آج کے دور میں بھی اہلِ ایمان کو یہی روش اپنانی چاہیے ایمان والوں کے ساتھ محبت، مشورہ، خیر خواہی اور تعاون جبکہ دین کے دشمنوں، باطل نظریات اور اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے جرأت و استقامت۔ یہ قرآنی معیار ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ایک سچا مؤمن وہی ہے جو باطل کے سامنے سخت اور حق کے ساتھ نرم و شفیق ہو۔ اسی توازن سے ایک صالح اور مضبوط امت وجود میں آتی ہے۔