جی ہاں، قرآن مجید کی روشنی میں مشرکین کو نجس (ناپاک) کہا گیا ہے، لیکن اس نجاست سے مراد صرف ظاہری جسمانی ناپاکی نہیں بلکہ اس کا تعلق عقیدہ، باطن اور روحانی حالت کی ناپاکی سے ہے۔
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ آمَنُوٓا۟ إِنَّمَا ٱلْمُشْرِكُونَ نَجَسٌۭ فَلَا يَقْرَبُوا۟ ٱلْمَسْجِدَ ٱلْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هَـٰذَا ۚ۔۔۔
اے ایمان والو! مشرک تو صرف ناپاک ہیں، لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب نہ آئیں۔
(التوبہ – 28)
یہ آیت باطنی، روحانی اور اعتقادی نجاست کی بات کر رہی ہے۔ مشرکین کا اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانا، باطل معبودوں کی عبادت کرنا، اور دینِ حق کی مخالفت کرنا ان کو روحانی اعتبار سے ناپاک بناتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں مسجد حرام میں داخلے سے روکا گیا، تاکہ حرم کی پاکیزگی برقرار رہے۔