کیا زبانی و رسمی تقویٰ اختیار کرنا چاہیے؟کیا زبانی و رسمی تقویٰ اختیار کرنا چاہیے؟
قرآنِ مجید نے اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ کا سچا اور خالص تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایسا تقویٰ جو زندگی کے ہر پہلو میں ظاہر ہو، نہ
قرآنِ مجید نے اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ کا سچا اور خالص تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ایسا تقویٰ جو زندگی کے ہر پہلو میں ظاہر ہو، نہ
قرآنِ مجید نے اہلِ ایمان کو اللہ تعالیٰ کا سچا، مکمل اور خالص تقویٰ اختیار کرنے کا حکم دیا ہے، جو صرف رسم یا زبانی دعویٰ نہ ہو، بلکہ پورے
قرآنِ مجید نے واضح طور پر بیان فرمایا ہے کہ شیطان کا سب سے بڑا حربہ یہ ہے کہ وہ انسان کو اللہ کے ذکر سے غافل کر دے، اور
قرآنِ مجید نے نفاق کو ایک نہایت خطرناک روحانی بیماری قرار دیا ہے، جو ایمان کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ منافق وہ ہوتا ہے جو زبان سے ایمان
قرآنِ مجید نے سچے مؤمنین کی صفات کو نہایت جامع اور واضح انداز میں بیان فرمایا ہے، تاکہ ایمان محض دعوٰی نہ رہے بلکہ کردار و عمل سے ظاہر ہو۔
قرآنِ مجید نے سورۂ توبہ کی ابتداء میں براءت یعنی اعلانِ بے زاری کفار و مشرکین کے خلاف فرمایا، جنہوں نے عہد شکنی کی، اسلام اور اہلِ ایمان کے خلاف
قرآنِ مجید نے مشرکین سے کیے گئے معاہدوں اور صلح کا احترام کرنے کا حکم دیا، بشرطیکہ وہ بھی اس معاہدے کی پاسداری کریں۔ دینِ اسلام عہد کی وفاداری اور
قرآنِ مجید کی التوبہ واحد سورت ہے جو بسم اللہ الرحمٰن الرحیم سے شروع نہیں ہوتی، اور اس کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں واضح اسباب معلوم
قرآنِ مجید نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے جنگ کرنے والوں کے لیے سخت وعید اور دنیا و آخرت میں ذلت آمیز انجام بیان فرمایا ہے۔ یہ حکم
قرآنِ مجید نے مشرکین کی روحانی ناپاکی کو ایک واضح اور مؤکد انداز میں بیان فرمایا، تاکہ اہلِ ایمان ان کے باطن کو سمجھیں اور دین کے معاملے میں ان