کیا “رضی اللہ عنہ” صرف صحابہ کے لیے کہنا جائز ہے؟کیا “رضی اللہ عنہ” صرف صحابہ کے لیے کہنا جائز ہے؟
اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے درجات مقرر فرمائے ہیں۔ “رضی اللہ عنہ” کہنا دراصل اللہ کی رضا کی گواہی دینا ہے، جو قرآن میں بلخصوص صحابہؓ کے لیے
اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے درجات مقرر فرمائے ہیں۔ “رضی اللہ عنہ” کہنا دراصل اللہ کی رضا کی گواہی دینا ہے، جو قرآن میں بلخصوص صحابہؓ کے لیے
اسلام میں قیادت و خلافت کا مقصد صرف اللہ کی حاکمیت کا قیام ہے، نہ کہ اقتدار کی جنگ۔ اور صحابی کی یہ شان نہیں ہے کہ اقتدار چھینے اور
اسلام میں خلافت کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ کے دین کو غالب کرنا ہے، نہ کہ بادشاہی قائم کرنا۔ نبی کریم ﷺ نے خلافتِ راشدہ کے بعد ملوکیت
اسلام میں ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت صحابہ کرامؓ رتبہ ہے، جنہوں نے نبی کریم ﷺ سے براہ راست دین حاصل کیا، اور اسے دنیا میں پھیلایا۔ اللہ
جنت اللہ کا انعام ہے جو وہ صرف اپنے مخلص بندوں کو عطا فرماتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بعض صحابہؓ کو دنیا میں ہی جنت کی بشارت دی، جنہیں
اہلِ بیت اور صحابہ کرامؓ دونوں اللہ کے چُنے ہوئے بندے ہیں، جنہوں نے نبی کریم ﷺ کی نصرت کی، دین کی خدمت کی، اور اللہ کی رضا کے لیے
اس مسئلے کو قرآن، سنت، اور توحید کی روشنی میں واضح کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آج اگر کوئی شخص عائشہؓ پر تہمت لگاتا ہے وہ نہ صرف
صحابہ کرامؓ وہ عظیم افراد ہیں جنہوں نے نبی کریم ﷺ کو حالتِ ایمان میں دیکھا، آپ پر ایمان لائے، اور آپ کی معیت میں دین کی خدمت کی۔ ان
اسلام کا نظام خلافت شورٰی، اجماع، اور عدل پر قائم کیا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے اپنی وفات کے بعد کسی ایک صحابی کو نام لے کر خلیفہ مقرر نہیں
خلافتِ ابوبکر صدیقؓ اسلام کی پہلی شرعی خلافت ہے، جس پر صحابۂ کرامؓ کا اجماع ہوا۔ ان کی خلافت نہ غصب تھی، نہ جبر، بلکہ وہ شورٰی، اجماعِ صحابہؓ، اور