کیا غوث، قطب، ابدال کے القابات کا شرعی جواز ہے؟کیا غوث، قطب، ابدال کے القابات کا شرعی جواز ہے؟
اسلام میں القابات اور عناوین کا استعمال شرعی نصوص اور صحابہ و تابعین کے تعامل کی روشنی میں ہی معتبر ہوتا ہے۔ بعض صوفی سلسلوں میں غوث، قطب، ابدال، اوتاد
اسلام میں القابات اور عناوین کا استعمال شرعی نصوص اور صحابہ و تابعین کے تعامل کی روشنی میں ہی معتبر ہوتا ہے۔ بعض صوفی سلسلوں میں غوث، قطب، ابدال، اوتاد
قبروں کے گرد طواف کرنا اسلام میں جائز نہیں بلکہ توحید کے اصولوں کے خلاف ہے۔ طواف ایک عبادت ہے، جو صرف اللہ کے لیے اور صرف خانہ کعبہ کا
قبر پر بیٹھ کر مخصوص انداز میں قرآن کی تلاوت کرنا، اور اسے ثواب پہنچانے کا ذریعہ یا رسم سمجھ لینا، قرآن و سنت کی روشنی میں بدعت میں شمار
اسلام کی بنیاد خالص توحید پر ہے، اور توحید کا تقاضا ہے کہ حاجت روائی، مشکل کشائی، مدد، اور فریاد صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے کی جائے۔ قرآن مجید
اسلام میں قبر پر عبادت کرنا یا کسی قبر کو عبادت کی جگہ بنانا سختی سے منع ہے، چاہے وہ قبر نبی کریم ﷺ کی ہی کیوں نہ ہو۔ سیدہ
دینِ اسلام میں تمام حاجات اور استغاثہ صرف اللہ تعالیٰ سے مانگنے کا حکم ہے۔ اللہ کے سوا کسی اور کو مدد کے لیے پکارنا، خاص طور پر اس نیت
اسلام میں عقیدہِ توحید سب سے بنیادی اور مرکزی حیثیت رکھتا ہے، اور قرآن مجید میں بار بار واضح کیا گیا ہے کہ مدد، مشکل کشائی، اور حاجت روائی صرف
توحید یعنی صرف اللہ سے مانگنا اور اسی سے مدد چاہنا، دینِ اسلام کا بنیادی ترین عقیدہ ہے۔ لیکن جب معاشرے میں بدعات، شرک اور غیراللہ سے مدد مانگنے کا
جی ہاں، قرآن و سنت کی روشنی میں قبر پرستی توحید کے خالص عقیدے کے خلاف ہے، اور اگر اس میں شرکِ اکبر کے عناصر پائے جائیں، جیسے دعا، نذر،
اسلام ایک ایسا دین ہے جو براہِ راست اللہ تعالیٰ سے تعلق، انبیاء کی سنت، اور کتاب اللہ کی پیروی کی دعوت دیتا ہے۔ مجاور اور پیری مریدی کا ایسا