قرآن و حدیث میں کہیں بھی یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ تعالیٰ صدقہ یا خیرات کے طور پر انسان سے اس کے سارے مال کا تقاضہ کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اعتدال کا حکم دیا ہے اور ان کے لیے آسانی پیدا کی ہے۔
وَيَسْــَٔـلُوْنَكَ مَاذَا يُنْفِقُوْنَ ڛ قُلِ الْعَفْوَ ۭ كَذٰلِكَ يُـبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُوْنَ
اور آپ سے پوچھتے ہیں کہ کون سے مال میں سے خرچ کریں ۔ فرما دیجئے ! جو زائد مال ہو اور اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنے احکام تمہیں بیان کرتا ہے تاکہ تم سوچ سمجھ سکو۔
(البقرہ-219)
وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا
نہ تو اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا رکھو اور نہ ہی اسے پوری طرح کھول دو کہ پھر تم ملامت کیے ہوئے اور حسرت زدہ ہو کر بیٹھ جاؤ۔
(بنی اسرائیل-29)
اللہ تعالیٰ نے حد سے زیادہ خرچ کرنے یا فضول خرچی کرنے سے منع کیا ہے۔ صدقہ بھی اعتدال کے ساتھ دینا چاہیے تاکہ انسان اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات پوری کر سکے۔