جب اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) ابراہیم علیہ السلام کو اپنے اپنے مذہب سے منسلک کرنے کی کوشش کرتے تھے، تو قرآن میں اس دعوے کی واضح تردید کی گئی اور انہیں کامل جواب دیا گیا کہ قرآن ان کو یاد دلاتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی، بلکہ وہ خالص اللہ کی توحید کے ماننے والے اور حنیف (شرک سے پاک) تھے۔ فرمایا
مَا كَانَ اِبْرٰهِيْمُ يَهُوْدِيًّا وَّلَا نَصْرَانِيًّا وَّلٰكِنْ كَانَ حَنِيْفًا مُّسْلِمًا ۭ وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ
ابراہیم (علیہ السلام) نہ یہودی تھے اور نہ ہی نصرانی بلکہ وہ تومکمل یک سوئی کے ساتھ بالکل سیدھے راستے پر چلنے والے مسلمان تھے اور وہ شرک کر نیوالوں میں سے (بھی) نہیں تھے ۔
(آل عمران – 67)
اہل کتاب کو بتلا دیا گیا کہ حق کے خلاف جھگڑا کرنا گمراہی ہے۔ اور ان کا جھگڑا بلا دلیل اور حقائق کے خلاف ہے۔ فرمایا
هَـٰٓأَنتُمْ هَـٰٓؤُلَآءِ حَـٰٓجَجْتُمْ فِيمَا لَكُم بِهِۦ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّونَ فِيمَا لَيْسَ لَكُم بِهِۦ عِلْمٌۚ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
تم لوگ ان باتوں میں تو جھگڑ چکے جن کا تمہیں کچھ علم تھا، پھر کیوں ان باتوں میں جھگڑتے ہو جن کا تمہیں علم ہی نہیں؟ اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
(ال عمران – 66)
قرآن نے اہل کتاب کے اس دعوے کی مکمل تردید کی اور یہ واضح کیا کہ ابراہیم علیہ السلام کا تعلق نہ یہودیت سے تھا نہ نصرانیت سے، بلکہ وہ اللہ کی توحید پر قائم تھے۔ ان کے مقام کو کسی خاص ملت تک محدود کرنا یا انہیں کسی خاص مذہب سے منسلک کرنا گمراہی ہے اسکے برعکس ان کا دعوی نسبت درست ہے جو انکی پیروی کرنے والے ہیں۔ فرمایا
اِنَّ اَوْلَى النَّاسِ بِاِبْرٰهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَھٰذَا النَّبِىُّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا ۭوَاللّٰهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ
بےشک تمام لوگوں میں سے ابراہیم (علیہ السّلام ) کے سب سے زیادہ قریب وہ ہیں جنھوں نے اُن کی پیروی کی اور یہ نبی ﷺ اور وہ جو نبی ﷺ پر ایمان لائے اور اللہ مومنوں کا مددگار ہے۔
(آل عمران – 68)