0 Comments

جی ہاں! مسلسل کفر کرنے والوں اور اپنے کفر پر اصرار کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگ جاتی ہے

اِنَّ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا سَوَاۗءٌ عَلَيْهِمْ ءَاَنْذَرْتَھُمْ اَمْ لَمْ تُنْذِرْھُمْ لَا يُؤْمِنُوْنَ ۝ خَتَمَ اللّٰهُ عَلٰي قُلُوْبِهِمْ وَعَلٰي سَمْعِهِمْ وَعَلٰٓي اَبْصَارِهِمْ غِشَاوَةٌ وَّلَھُمْ عَذَابٌ عَظِيْمٌ ۝

بےشک جن لوگوں نے کفر کیا ان کے حق میں برابر ہے خواہ آپ اُنھیں ڈرائیں یا اُنھیں نہ ڈرائیں وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر مہرلگا دی ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ (پڑا ہوا) ہے اور ان کے لیے بڑا عذاب ہے۔
(البقرہ – 6 تا 7)

قرآنِ مجید اور سنتِ نبوی ﷺ کے مطابق، جب کوئی شخص مسلسل حق کا انکار کرتا ہے اور ضد پر قائم رہتا ہے، تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے تاکہ وہ ہدایت قبول نہ کرے۔ یہ ایک سنگین انجام ہے، جو اس بات کی نشانی ہے کہ بندے نے ہدایت سے خود منہ موڑ لیا ہے۔ اس کی وضاحت توحیدی پیٹرن میں یوں کی جا سکتی ہے:

کفر پر اصرار کرنے والوں کی روحانی حالت بیان ہوئی کہ ان کے دل، کان اور آنکھیں حق کو قبول کرنے سے بند کر دی گئی ہیں۔ یہ مہر اس وقت لگتی ہے جب بندہ مسلسل حق سے اعراض کرتا ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“بندہ جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نکتہ پڑتا ہے، اگر وہ توبہ کرے تو وہ مٹ جاتا ہے، اور اگر وہ مزید گناہ کرتا ہے تو وہ نکتہ بڑھتا رہتا ہے، یہاں تک کہ پورے دل کو ڈھانپ لیتا ہے۔ یہی وہ ‘رَان’ ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے۔”
(جامع ترمذی، حدیث 3334)

یہ حدیث بتاتی ہے کہ دل کی سختی اور حق سے محرومی اچانک نہیں ہوتی، بلکہ یہ انسان کے بار بار گناہ کرنے اور توبہ نہ کرنے کا نتیجہ ہوتی ہے۔

کفر اور مسلسل گناہ انسان کے دل کو اس حد تک سیاہ کر دیتے ہیں کہ پھر ہدایت کا نور اس میں داخل نہیں ہو پاتا۔ اللہ تعالیٰ ایسے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے، جو اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ وہ شخص اب سزا کا مستحق ہے۔ لہٰذا ہدایت کا دروازہ کھلا ہونے کے دوران توبہ اور رجوع الی اللہ ہی نجات کا واحد راستہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts