اسلام میں روزہ صرف اس امتِ مسلمہ کے لیے ہی نہیں، بلکہ سابقہ امتوں پر بھی ایک دینی فریضہ کے طور پر فرض کیا گیا تھا۔ قرآنِ مجید نے اس بات کو نہایت واضح انداز میں بیان فرمایا
“يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ”
(البقرہ: 183)
“اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے، تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔”
یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ روزے کا نظام پچھلی امتوں میں بھی موجود تھا، اگرچہ اس کی مدت یا تفصیل مختلف ہو سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کو تقویٰ پیدا کرنے کا ذریعہ بنایا، اور یہ مقصد ہر دور میں ہر امت کے لیے اہم رہا ہے۔ نبی ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں بھی ہمیں اس بات کے شواہد ملتے ہیں کہ آپ ﷺ نے مدینہ میں موجود یہودیوں کے عاشوراء کے روزے کا ذکر فرمایا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی روزے رکھا کرتے تھے۔
لہٰذا، روزہ ایک قدیم عبادت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنی ہر امت کو عطا فرمائی، اور ہماری امت کو رمضان کی صورت میں اسے ایک مکمل اور فضیلت والا نظام دے کر خصوصی نعمت عطا کی۔ مسلمان کو چاہیے کہ وہ اس عبادت کو اسی روح اور تقویٰ کے ساتھ ادا کرے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا مقصود ہے۔