کفار کو دلی دوست بنانے میں کئی باطنی، معاشرتی اور دینی نقصانات ہو سکتے ہیں۔ قرآن اور حدیث میں مسلمانوں کو کفار کو اپنے دلی دوست بنانے سے منع کیا گیا ہے، کیونکہ اس میں ایمان، عقیدہ اور معاشرتی تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ فرمایا
يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ۭ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ۚ قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاۗءُ مِنْ اَفْوَاهِھِمْ ښ وَمَا تُخْفِيْ صُدُوْرُھُمْ اَكْبَرُ ۭ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْاٰيٰتِ اِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُوْنَ
اے ایمان والو ! غیروں کو اپنا راز دار نہ بناؤ وہ تمھیں خرابی پہنچانے میں کوئی کسر نہ اُٹھا رکھیں گے اور اُنھیں وہی چیز پسند ہے جو تمھیں تکلیف دے یقیناً اُن کی زبانوں سے بغض ظاہر ہو ہی جاتا ہے اور جو (دشمنی) اُن کے سینوں نے چُھپا رکھی ہے وہ اس سے (بھی) زیادہ بڑی ہے یقیناً ہم نے تمھارے لیے آیات کو واضح کر دیا ہے اگر تم عقل سے کام لو۔
(آل عمران – 118)
یہاں اہل ایمان کو متنبہ کیا گیا کہ غیر مسلموں کو اپنا راز دار نہ بنائیں، کیونکہ ان کا دل تمہارے خلاف دشمنی سے بھرا ہوتا ہے اور وہ ہمیشہ تمہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کی زبانی باتوں میں بغض اور عداوت ظاہر ہوتی ہے، اور جو کچھ ان کے دلوں میں چھپاہوتا ہے وہ اس سے بھی زیادہ ہے۔ اللہ نے اس آیت کے ذریعے مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ اپنے دوستوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرو اور عقل سے کام لو۔