اسلام میں نبی کریم ﷺ کو “بندہ” کہنا نہ صرف جائز بلکہ قرآنی اسلوب اور توحید پر مبنی عقیدے کا اہم تقاضا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود اپنے نبی ﷺ کو سب سے پہلے “عبد” یعنی اللہ کا بندہ کہا، کیونکہ یہ نسبت سب سے بلند و بالا اور شرف والی ہے۔
قرآن میں فرمایا:
سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا ۚ إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ
“پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی، جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنایا، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہی خوب سننے والا، خوب دیکھنے والا ہے۔”
(سورۃ الإسراء: 1)
یہاں عبد کا لفظ نبی ﷺ کے لیے استعمال کیا گیا، حالانکہ یہ معراج جیسا عظیم واقعہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے نبی ﷺ کو بادشاہ، حاکم یا رسول کہنے کے بجائے “اپنا بندہ” کہہ کر یہ واضح فرمایا کہ اللہ کے نزدیک سب سے بڑی عزت بندگی کی ہے، نہ کہ خدائی صفات کی طرف نسبت دینا۔
نبی ﷺ نے خود فرمایا:
“مجھے میری حد سے نہ بڑھاؤ جیسے عیسائیوں نے عیسیٰ ابن مریم کی بڑائی کی۔ میں اللہ کا بندہ ہوں، پس کہو: اللہ کے بندے اور اس کے رسول۔”
(صحیح بخاری، حدیث 3445)
یہ حدیث توحید کا مینار ہے۔ نبی ﷺ نے خود منع فرمایا کہ انہیں ان کے مقام سے بڑھا کر نہ پکارا جائے، بلکہ “عبدُ اللّٰہ و رسولُہ” کہا جائے۔ اسی لیے صحابہ کرامؓ، تابعین، اور تمام سلف صالحین نبی ﷺ کو اللہ کا بندہ اور رسول کہا کرتے تھے۔
نبی ﷺ کو “اللہ کا بندہ” کہنا ہمیں شرک سے محفوظ رکھتا ہے اور نبی ﷺ کے لیے وہی عزت فراہم کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ نے مقرر فرمائی ہے۔
نبی ﷺ کو اللہ کا بندہ کہنا اللہ کو پسند ہے۔ جیسے خود اللہ نے اپنے نبی ﷺ کو اپنا بندہ کہا ہے۔ فرمایا
وَاِنْ كُنْتُمْ فِىْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ وَادْعُوْا شُهَدَاۗءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ
اور اگر تم شک میں ہو اس (کلام کی سچائی ) کے بارے میں جو ہم نے اپنے (خاص ) بندہ پر نازل کیا ہے تو اس طرح کی ایک سورت لے آؤ اور اللہ کے سوا اپنے مددگاروں کو بھی بلا لو اگر تم سچّے ہو۔
(البقرہ – 23)