0 Comments

موجودہ دور میں ﷲ کے اختیارات میں شرک اس طرح کیا جاتا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ
ﷲ کے پَلّے میں واحدت کے سوا رکھا ہی کیا ہے، جو کچھ لینا ہے لے لیں گے در مصطفیٰ سے

ﷲ رب العزت فرماتے ہیں کہ

مَا قَدَرُوا اللَّهَ حَقَّ قَدْرِهِ
اِن لوگوں نے اللہ کی قدر ہی نہ پہچانی جیسا کہ اس کے پہچاننے کا حق ہے۔
(الحج-74 )

إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَٰلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ ۚ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَالًا بَعِيدًا۝

اللہ کے ہاں بس شرک ہی کی بخشش نہیں ہے، اس کے سوا اور سب کچھ معاف ہوسکتا ہے جسے وہ معاف کرنا چاہے جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا وہ تو گمراہی میں بہت دور نکل گیا.
(النساء-116ٔ)

إِنَّهُ مَنْ يُشْرِكْ بِاللَّهِ فَقَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ وَمَأْوَاهُ النَّارُ ۖ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنْصَارٍ۝

جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھیرایا اُس پر اللہ نے جنت حرام کر دی اور اُس کا ٹھکانا جہنم ہے اور ایسے ظالموں کا کوئی مدد گار نہیں.
(المائدہ-72)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو صرف اپنی بندگی کے لیے پیدا فرمایا اور ہر معاملے میں خالص اسی کے حکم کو نافذ کرنے کا حکم دیا۔ توحید کا تقاضا ہے کہ فیصلے، قوانین، اطاعت، اختیار، حاکمیت اور شریعت صرف اللہ کے لیے ہو۔ اگر انسان کسی اور کو اللہ کے برابر قانون سازی یا حکم چلانے کا حق دیتا ہے تو یہ اختیارات میں شرک ہے، جو قرآن کے مطابق سنگین جرم ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
أَمْ لَهُمْ شُرَكَاءُ شَرَعُوا لَهُم مِّنَ الدِّينِ مَا لَمْ يَأْذَن بِهِ ٱللَّهُ ۚ وَلَوْلَا كَلِمَةُ ٱلْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۗ وَإِنَّ ٱلظَّـٰلِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ

“کیا ان کے کچھ شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین میں وہ چیزیں مقرر کیں جن کی اللہ نے اجازت نہیں دی؟ اور اگر فیصلے کی ایک بات (اللہ کی طرف سے) طے نہ ہو چکی ہوتی تو ان کے درمیان ابھی فیصلہ کر دیا جاتا، اور یقیناً ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔”
(سورۃ الشوریٰ: 21)

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ کسی کو اللہ کی شریعت کے برابر قانون ساز سمجھنا، خواہ وہ پارلیمنٹ ہو یا بادشاہ، شرک ہے۔ موجودہ دور میں ایسے قوانین جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہوں، جیسے سود کو جائز قرار دینا، زنا کو قانونی بنانا، یا اسلامی حدود کو غیر انسانی کہنا، دراصل شرک فی الحاکمیہ یعنی اختیار میں شرک کی صورتیں ہیں۔

پچھلی امتوں کا زوال بھی اسی شرک کی وجہ سے ہوا۔ انہوں نے اللہ کی بجائے اپنے علماء، صوفیاء، بادشاہوں یا فلسفیوں کی بات کو اللہ کے حکم پر ترجیح دی، جس سے دین بگڑ گیا۔

یعنی جب علماء و راہب حرام کو حلال اور حلال کو حرام کہتے تو لوگ انہیں مانتے، حالانکہ اللہ کے سوا کسی کو حاکم ماننا شرک ہے۔

توحید کا تقاضا ہے کہ ہم حاکمیت، قانون سازی، اور فیصلے کا حق صرف اللہ کو دیں۔ دنیاوی قانون اگر شریعت کے خلاف ہو تو اسے نہ تسلیم کیا جائے، نہ دل سے جائز سمجھا جائے۔ یہی ایمان کا تقاضا اور نجات کا راستہ ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts