ظاہر میں ایمان اور باطن میں کفر کا ہونا منافقت کہلاتا ہے۔جیسے فرمایا کہ
وَاِذَا لَقُوا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا قَالُوْٓا اٰمَنَّا وَاِذَا خَلَوْا اِلٰى شَيٰطِيْنِهِمْ قَالُوْٓا اِنَّا مَعَكُمْ اِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِءُوْنَ
جب ملاقات کریں مسلمانوں سے ، کہیں ، ہم مسلمان ہوئے۔ اور جب اکیلے جائیں اپنے شیطانوں پاس ، کہیں ، ہم ساتھ ہیں تمہارے ، ہم تو (ان کے ساتھ) ہنسی کرتے ہیں ۔
(البقرہ- 14)
منافقت دینِ اسلام میں ایک انتہائی ناپسندیدہ اور خطرناک صفت ہے، جو بظاہر ایمان لانے اور اندرونی طور پر کفر چھپانے کو کہتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں یہ ایک ایسا دوغلا پن ہے جو انسان کو آخرت میں سخت ترین عذاب کی طرف لے جاتا ہے۔ توحیدی پیٹرن میں اس کی وضاحت درج ذیل ہے:
قرآنِ مجید میں اللہ فرماتا ہے:
“بے شک منافق لوگ جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے، اور تو ان کا کوئی مددگار نہ پائے گا۔”
(سورۃ النساء: 145)
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ نفاق صرف معمولی گناہ نہیں، بلکہ ایسا جرم ہے جو جہنم کے بدترین مقام کا مستحق بناتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نفاق، کفر سے بھی زیادہ خطرناک ہے، کیونکہ یہ دین کے خلاف دھوکہ اور اللہ سے بدعہدی ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بات کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے، اور جب امانت دی جائے تو خیانت کرے۔”
(صحیح بخاری، حدیث 33، صحیح مسلم، حدیث 59)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نفاق صرف عقیدے میں نہیں، بلکہ عمل میں بھی ہو سکتا ہے، یعنی جو شخص بظاہر مسلمان ہو مگر جھوٹ، خیانت اور وعدہ خلافی جیسے اعمال کرے، وہ منافقانہ صفات کا حامل ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ظاہری و باطنی طور پر اپنے ایمان کو خالص رکھیں، سچائی، دیانت اور وعدہ وفائی کو شعار بنائیں، تاکہ ہم حقیقی مومن کہلائیں، نہ کہ منافق۔