0 Comments

لین دین کے وقت لکھنا قرآن و سنت کی روشنی میں ایک انتہائی اہم اور ضروری عمل ہے۔ اس کے ذریعے معاملات کو صاف اور شفاف رکھنے، اختلافات سے بچنے، اور انصاف کو یقینی بنانے کی ترغیب دی گئی ہے۔

قرآن میں حکم دیا گیا ہے کہ قرض یا کسی بھی مالی معاہدے کو لکھا جائے، تاکہ بعد میں کسی بھی قسم کے جھگڑے یا غلط فہمی سے بچا جا سکے۔ لکھنے والا ایسا شخص ہو جو انصاف اور دیانت داری سے کام لے۔ لین دین کے وقت گواہ مقرر کرنے کی بھی تاکید کی گئی ہے، تاکہ معاہدے کی تصدیق ہو سکے۔

قرآنِ مجید نے انسانی معاملات کو عدل، امانت اور شفافیت کی بنیاد پر قائم رکھنے کے لیے واضح اصول دیے ہیں۔ مالی لین دین ان حساس امور میں سے ہے جہاں اختلافات، جھگڑے اور خیانت کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اسی لیے قرآن نے مسلمانوں کو تلقین فرمائی کہ قرض یا ادھار جیسے معاملات کو تحریری طور پر محفوظ کریں، تاکہ بعد میں کسی قسم کا نزاع یا جھوٹ پیدا نہ ہو۔

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنتُم بِدَيْنٍ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى فَاكْتُبُوهُ…
“اے ایمان والو! جب تم کسی معین مدت کے لیے آپس میں قرض کا لین دین کرو تو اُسے لکھ لیا کرو…”
(البقرہ: 282)

یہ قرآن کی سب سے طویل آیت ہے، جو نہ صرف لین دین کے وقت لکھنے کا حکم دیتی ہے، بلکہ گواہ بنانے، انصاف کے ساتھ لکھنے، اور فریقین کے تحفظ کو بھی بیان کرتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ مالی معاملات کو زبانی اعتماد پر چھوڑ دینا شرعی حکمت کے خلاف ہے۔

صحابہ کرامؓ اور نبی کریم ﷺ کی زندگی میں بھی یہ اصول نمایاں تھا۔ آپ ﷺ نے ہر اس رویے کی مخالفت فرمائی جو دھوکہ، خیانت یا شک کی بنیاد رکھتا ہو، اور فرمایا:

“دھوکہ دینے والا ہم میں سے نہیں۔”
(صحیح مسلم:حدیث نمبر 101)

پس، مسلمان کو چاہیے کہ وہ کسی بھی مالی معاملے کو تحریری شکل دے، گواہ رکھے، اور اللہ سے ڈرتے ہوئے دیانت داری کو اختیار کرے۔

عصری تطبیق: آج کے دور میں جہاں جھوٹ، خیانت اور عدالتی پیچیدگیاں عام ہیں، قرآن کا یہ حکم مسلمانوں کے لیے ایک بہترین عدالتی و اخلاقی ڈھال فراہم کرتا ہے۔ لین دین کو تحریر میں لانا ایک شرعی فریضہ اور معاشرتی تحفظ ہے، جس سے نہ صرف حقوق محفوظ ہوتے ہیں بلکہ ایمان کی سلامتی بھی باقی رہتی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts