0 Comments

اسلام کا بنیادی پیغام سچائی، عدل، اور حق گوئی ہے۔ قرآنِ مجید نے اہلِ کتاب کے ان جرائم کا خاص طور پر ذکر کیا ہے جن میں وہ حق کو چھپاتے یا اس میں باطل ملا دیتے تھے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف ایمان کے منافی ہے بلکہ اس سے عوام گمراہی میں مبتلا ہوتی ہے، اور دین کے خالص پیغام پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ حق کو باطل سے ملانا اور حق کو چھپانا ایسا گناہ ہے جو ہلاکت و لعنت کا سبب بنتا ہے۔ یہ عمل خاص یہودیوں کا رہا ہے۔فرمایا

وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ
“اور سچ کو جھوٹ کے ساتھ نہ ملاؤ اور حق کو نہ چھپاؤ، حالانکہ تم جانتے ہو۔”
(سورۃ البقرہ، آیت 42)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہود کے علما کو تنبیہ کی، لیکن اصول ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ہے۔ جو شخص دین کا علم رکھتا ہے، اسے حق بات کھول کر بیان کرنی چاہیے۔ اگر وہ حق چھپاتا ہے، یا ذاتی مفاد کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتا ہے، تو یہ نہ صرف خیانت ہے بلکہ ایمان کے تقاضے کے خلاف ہے۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“جو شخص علم کو چھپائے، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالے گا۔”
(سنن ابن ماجہ، حدیث 261، سند صحیح)

اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ حق چھپانا صرف دنیاوی بددیانتی نہیں بلکہ اخروی عذاب کا بھی باعث ہے۔ امتِ مسلمہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین کے معاملے میں سچائی اور شفافیت اختیار کرے، اور کسی بھی قسم کی مصلحت یا خوف کے تحت دین کی بات نہ بدلے، نہ چھپائے۔

جو لوگ حق بات کو چھپاتے ہیں، یا اس میں باطل کی آمیزش کرتے ہیں، ان کی مثال بنی اسرائیل کے ان علما جیسی ہے جن پر اللہ نے لعنت فرمائی۔ ایسے لوگ قیامت کے دن عذر پیش نہیں کر سکیں گے۔ جبکہ جو لوگ خالص توحید اور سچائی کے ساتھ دین کی بات پہنچاتے ہیں، وہ اللہ کے محبوب اور نجات یافتہ بندے ہیں۔

پس، ہمیں چاہیے کہ حق کو پہچانیں، اسے خالص رکھیں، اور بغیر کسی خوف کے بیان کریں، تاکہ ہم اللہ کے سامنے سرخرو ہوں۔ یہی توحید کا تقاضا ہے کہ ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوں، اور باطل سے مکمل بیزاری کا اظہار کریں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts