روزے کی راتوں میں بیوی کے پاس جانا (یعنی ازدواجی تعلق قائم کرنا) جائز اور حلال ہے۔ قرآن مجید میں اس کی صراحت کے ساتھ اجازت دی گئی ہے۔
اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَاۗىِٕكُمْ ۭ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ ۭعَلِمَ اللّٰهُ اَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ ۚ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَكُمْ
تمہا رے لیے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویو ں کے پاس جا نا حلا ل کردیا گیا وہ تمہا رے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس ہو اللہ کو علم تھا کہ تم (اُن کے پاس جاکر) اپنے آپ سے خیانت کیا کرتے تھے تو اس نے تم پر نظرِ کرم فرمائی اور تمھیں معاف فرما دیا تو اب تم ان سے صحبت اختیار کرو اور تلاش کرو جو اللہ نے تمھارے لیے (نصیب میں) لکھ دیا ہے۔
(البقرہ-187)
اس آیت میں واضح طور پر بیوی سے رات کے وقت تعلق قائم کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے۔ ابتدا میں روزے کے ابتدائی احکام میں صحابہ کرامؓ کو سختی محسوس ہوئی، جس میں رات میں بھی بیوی سے تعلق ممنوع سمجھا جاتا تھا۔ بعض نے کمزوری دکھائی، تو اللہ نے معافی کے ساتھ حکم کو آسان بنا دیا اور فرمایا کہ “اب یہ تمہارے لیے حلال ہے”۔
اسلام فطرت کے عین مطابق دین ہے۔ روزے کا مقصد نفس کشی نہیں، بلکہ ضبطِ نفس ہے۔ رات کو بیوی کے ساتھ تعلق رکھنا رحمتِ الٰہی ہے، لیکن اس کے بعد فجر سے پہلے پاکی حاصل کر لینا ضروری ہے تاکہ نماز اور روزہ دونوں صحیح ہوں۔ مسلمان کو شرعی آسانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کی اطاعت میں زندگی گزارنی چاہیے۔