0 Comments

اسلام کی دعوت کا محور توحید اور آخرت کی کامیابی ہے۔ قرآنِ مجید ہمیں نہ صرف جنت کی نعمتوں سے آگاہ کرتا ہے، بلکہ جہنم کے انجام اور اس کے ایندھن کے بارے میں بھی خبردار کرتا ہے تاکہ انسان گناہوں سے بچ کر نجات کی راہ اختیار کرے۔ جہنم کا ایندھن عام آگ کی طرح لکڑی یا کوئلہ نہیں، بلکہ کچھ ایسا ہولناک ہے جسے سن کر انسان کا دل کانپ اٹھے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
آگ کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔
۔۔۔فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِىْ وَقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِيْنَ ۝

ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن آدمی اور پتھر ہیں جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
(البقرہ – 24)

اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ جہنم کا ایندھن وہ انسان ہوں گے جنہوں نے اللہ کی توحید کا انکار کیا، اور وہ سخت دل پتھر جن سے ان کے دلوں کی مثال دی گئی ہے۔ اس کی شدت اور ہولناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ آگ ان ہی انسانوں کو جلا کر دہکائی جائے گی جنہوں نے اپنے رب کا انکار کیا، اور دنیا میں سرکشی اختیار کی۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“آگ تمہاری اس دنیا کی آگ سے ستر درجے زیادہ گرم ہے۔”
(صحیح بخاری، حدیث 3265)

یہ حدیث اس بات پر دلیل ہے کہ جہنم کی آگ ایسی نہیں جیسے دنیا کی آگ ہو۔ وہ کہیں زیادہ شدید، دہکتی اور ناقابلِ برداشت ہے۔ اس کے ایندھن کا انسان بننا اس کے عذاب کو اور بھی ہولناک بنا دیتا ہے۔ توحید کی تعلیم یہی ہے کہ انسان اپنے آپ کو اس انجام سے بچائے، اور خالص اللہ کی عبادت کرے تاکہ جہنم کے ایندھن بننے سے محفوظ رہے۔

پس جو شخص اللہ کی وحدانیت کو مانتا ہے، شرک سے بچتا ہے، اور تقویٰ اختیار کرتا ہے، وہی اس آگ سے نجات پائے گا۔ یہی حقیقی نجات اور کامیابی ہے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Related Posts