قرآنِ مجید میں اللہ تعالیٰ نے سابقہ اقوام کے انجام کو بطور عبرت ذکر کیا ہے تاکہ انسان گناہ سے بچے اور اطاعت کی راہ اپنائے۔ بنی اسرائیل کو بھی کئی مواقع دیے گئے، لیکن جب انہوں نے اللہ کے واضح حکم کی خلاف ورزی کی اور فریب و چالاکی سے حرام کو حلال بنانے کی کوشش کی، تو اللہ تعالیٰ نے اُن پر سخت عذاب نازل فرمایا، جس کی ایک صورت یہ تھی کہ انہیں ذلیل بندر بنا دیا گیا۔یہ بنی اسرائیل کا ایک طبقے تھا جس کو بطور آزمائش ہفتے کے دن مچھلی پکڑنے سے منع فرمایا تھا مگر وہ قوم باز نہ آئی تو اللہ نے بطور سزا انہیں ذلیل و خوار بندر بنا دیا۔ فرمایا
وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِيْنَ اعْتَدَوْا مِنْكُمْ فِى السَّبْتِ فَقُلْنَا لَھُمْ كُوْنُوْا قِرَدَةً خٰسِـــِٕيْنَ
اور تم اُنھیں خوب جانتے ہو جنھوں نے تم میں سے ہفتہ کے دن کے بارے میں تجاوز کیا تھا تو ہم نے اُنھیں کَہ دیا کہ دھتکارے ہوئے بندر ہو جاؤ۔
(البقرہ ـ 65)
(مزید تفصیل سورت الاعراف 163 تا 166 نمبر آیت میں دیکھیں۔)
یہ لوگ ہفتے کے دن شکار کی ممانعت کے باوجود چالاکی سے مچھلیوں کو جال میں پھنسا لیتے اور اگلے دن نکال لیتے تھے، گویا اللہ کے حکم کا مذاق اڑاتے تھے۔ اللہ نے اس جرم پر اُن کی شکلیں بدل ڈالیں تاکہ وہ نشانِ عبرت بن جائیں۔
یہ معاملہ محض ماضی کا قصہ نہیں، بلکہ ایک دائمی اصول ہے کہ جو قوم اللہ کے احکام میں چالاکیاں کرے، وہ عذاب کی مستحق بنتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“میری امت بھی وہی کرے گی جو بنی اسرائیل نے کیا…”(صحیح بخاری)
یہ اس بات کی تنبیہ ہے کہ اگر ہم نے دین کے ساتھ چالاکی، فریب یا خواہشات کی پیروی کی، تو انجام بھی ویسا ہی ہو سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، خاص طور پر اس انداز میں کہ انسان حرام کو حیلے سے حلال بنائے، سنگین جرم ہے۔ اس سے بچنے کے لیے ہمیں دین کو اخلاص، عاجزی اور اطاعت سے قبول کرنا چاہیے تاکہ ہم دنیا و آخرت میں اللہ کے غضب سے محفوظ رہیں۔