قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور علم کی وضاحت اس طرح کی گئی ہے کہ وہ نہ صرف مردوں کو زندہ کرے گا بلکہ انسانوں کے تمام اعمال کو ظاہر اور نمایاں بھی کر دے گا، چاہے وہ کتنے ہی خفیہ یا گہرائی میں ہوں۔ یہ عقیدہ توحید اور آخرت پر ایمان کا ایک بنیادی جز ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
“یَومَ تَأتِي كُلُّ نَفسٍ تُجادِلُ عَن نَفسِها وَتُوفّى كُلُّ نَفسٍ ما عَمِلَت وَهُم لا يُظلَمونَ”
“جس دن ہر جان اپنی ہی فکر میں ہوگی، اور ہر ایک کو اس کے کیے کا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔”
(سورہ النحل: 111)
اور فرمایا:
“وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذَا هُم مِّنَ الْأَجْدَاثِ إِلَىٰ رَبِّهِمْ يَنسِلُونَ”
“پھر صور پھونکا جائے گا تو وہ اپنی قبروں سے نکل کر اپنے رب کی طرف دوڑیں گے۔”
(یٰسین: 51)
یہ آیات واضح کرتی ہیں کہ قیامت کے دن جب صور پھونکا جائے گا تو سب مردے دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، اور ہر انسان کے چھپے اور کھلے اعمال اللہ کے سامنے پیش ہوں گے۔ کوئی عمل چھپ نہیں سکے گا۔
اس کا ایک نمونہ بطور دلیل اللہ نے اس طرح دیا ہے کہ
وَاِذْ قَتَلْتُمْ نَفْسًا فَادّٰرَءْتُمْ فِيْهَا وَاللّٰهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ فَقُلْنَا اضْرِبُوْهُ بِبَعْضِهَا كَذٰلِكَ يُـحْىِ اللّٰهُ الْمَوْتٰى وَيُرِيْكُمْ اٰيٰتِهٖ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُوْنَ
اور (یاد کرو ) جب تم نے ایک شخص کو قتل کیا پھر تم ایک دوسرے پر اس کا اِلزام لگانے لگے اور اللہ ظاہر کرنے والا تھاوہ بات جو تم چھُپا رہے تھے۔ تو ہم نے کہا کہ اُس (مقتول) کے جسم پر (گائےکا ) ایک حصّہ مارو، یوں اللہ مُردوں کو زندہ فرماتا ہے اور تمھیں اپنی نشانیاں دِکھاتا ہے شاید تم سمجھو۔
(البقرہ ـ 72 تا 73)
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“لوگ قیامت کے دن ننگے پاؤں، ننگے بدن اور غیر مختون حالت میں جمع ہوں گے، پھر ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا۔”
(صحیح بخاری، حدیث 6527)
یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مکمل قدرت، علم اور عدل کا مظہر ہوگا۔ اس لیے مؤمن کو چاہیے کہ دنیا میں رہتے ہوئے اپنے اعمال کی اصلاح کرے، اور ہر وقت اللہ کے حضور جوابدہی کا احساس رکھے۔ دنیا کا پردہ قیامت کے دن ہٹا دیا جائے گا، اور ہر جرم بے نقاب ہوگا۔